@azad73.bsky.social
مولانا رومی ،خواجہ غلام فرید ،پیر وارث شاہ ،میاں محمد بخش،بلھے شاہ ، شاہ حسین استاد دامن ،ولی دکنی ،سراج اورنگ آبادی ،میر تقی میر،مرزا محمد رفیع سودا،میر درد،غلام علی ہمدانی مصحفی، ناسخ ، آزردہ ، غالب ،ریاض خیر آبادی ،شیفتہ ،مومن ،استاد داغ ،اقبال کا عاشق
بابا جی فرماتے ہیں
جان والیا جان دی خیر ہووی
جان لگیاں انج تے جائی دا نہیں
جائیے دلاں دی سن سنا کے تے
وہم کسے دے دل وچ پائی دا نہیں
جے ہووے خطا تے بھلا دئیے
جان بجھ کے دل ٹھکرائی دا نہیں
قصور مندؔ سیانیاں آکھیا اے
حساب سجناں نال مکائی دا نہیں
بابا جی قصور مند
ہر کسے نوں کسے تے مان ہندا مان کسے نوں ودھیریاں پتراں دا
دولت مال دا کسے نوں مان یارو کسے نوں مان اے گھوڑیاں شتراں دا
عقل علم دا کسے نوں مان یارو کسے نوں مان ودھیریاں ٹکراں دا
قصور مند نوں تیرا اے مان مولٰی ہر حالَ گزاردا اے شکراں دا
بابا جی قصور مند
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے
نہ پوچھو زخم ہائے دل کا عالم
چمن میں ایسی گل کاری نہیں ہے
چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر
یہ آئین وفاداری نہیں ہے
وہ آئیں قتل کو جس روز چاہیں
یہاں کس روز تیاری نہیں ہے
عاجز
کیا دل ہے کہ آرام سے اک سانس نہ لے ہے
محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے
کلیم عاجز
جس دن کوئی غم مجھ پہ گزر جائے ہے پیارے
چہرہ ترا اس روز نکھر جائے ہے پیارے
اک گھر بھی سلامت نہیں اب شہر وفا میں
تو آگ لگانے کو کدھر جائے ہے پیارے
رہنے دے جفاؤں کی کڑی دھوپ میں مجھ کو
سائے میں تو ہر شخص ٹھہر جائے ہے پیارے
ہر چند کوئی نام نہیں میری غزل میں
تیری ہی طرف سب کی نظر جائے پیارے
عاجز
بےشک
29.01.2025 03:02 — 👍 0 🔁 0 💬 0 📌 0
سجنوا دوارے میں جاؤں رے کیسے
شرم موہے لاگے بتاؤں رے کیسے
عمر یا گنوائی ہے سووت یا کھیلت
پیا سے نجریا ملاؤں رے کیسے
خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
عقل صبرآشنا سے کچھ نہ ہوا
شوق کی بے قراریاں نہ گئیں
دن کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں
شب کی اختر شماریاں نہ گئیں
طرز مومنؔ میں مرحبا حسرتؔ
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں
مولانا حسرت موہانی
اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیری
پلکیں ندیدیاں ہیں آنکھیں خماریاں ہیں
کیا پوچھتا ہے ہم دم احوال مصحفیؔ کا
راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں
مصحفی
ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
غالب
کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے
آئے ہیں پھرکے یاروابکے خدا کےہاں سے
اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو
الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
میر تقی میر
میر تقی میر کی ایک غزل
میر تقی میر کی ایک غزل کے دو اشعار
مولانا مودودی کی ایک تحریر
ایک شخص مجھی ساتھا کہ تھاتجھ سے پہ عاشق
وہ اس کی وفا پیشگی وہ اس کی جوانی
یہ کہہ کے میں رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر
سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
میر
کمال شخصیت تھے دونوں
نابغہ روزگار
مدرسے کے بچوں کو کوئی ہنر ضرور سکھانا چاہئیے اگر مدرسے کے فارغ التحصیل بچوں کے پاس ہنر نہ ہوا تو وہ دین بیچیں گے۔
مولانا ابوالکلام آزاد
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
مولانا ابوالکلام آزاد
ان کے اجتماع میں جا کر آپ کبھی ان کی باتیں، تقاریر اور نصائح سنیں؛ وہ آسمان سے اوپر کی باتیں کرتے ہیں یا زمین سے نیچے کی باتیں کرتے ہیں۔ زمین کے اوپر کی باتیں نہیں کرتے۔
مولانا آزاد اور تبلیغی جماعت
پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار مولانا ابوالکلام آزاد سے کہا کہ تبلیغی جماعت والوں کو کہیں، اتنا بڑا مذہبی اجتماع بھارت جیسے سیکولر ملک میں نہ کیا کریں۔ جواب میں ابوالکلام رحمہ اللہ نے کہا پنڈت جی آپ بلاوجہ پریشان ہو رہے۔
ہوتےاتنی خجالت، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی
مشتاق احمد یوسفی
آب گم
مولاناآزاد اپنا سنِ پیدائش اس طرح بتاتے ہیں
“یہ غریب الدّیار عہد، ناآشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888 ء مطابق ذوالحجہ 1305 ھ میں ہستی عدم سے اس عمد ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم۔“
اب لوگ اسطرح پیدا نہیں
’’ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے جو بوقتِ نکاح خطبہ اور بوقت نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملاتِ زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چھوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرے۔‘‘
امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ
مونچھوں کو تاؤ دیتے،ہاتھوں میں سگریٹ کا کش لگائے یہ مولوی وقت کا امام ابوالکلام آزاد ہے
آج کے دستار بند و دماغ بند مولوی اسے کبھی اپنا آئیڈیل قبول نہیں کریں گے
ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور ہندو قوم کو تعلیم کے اس مقام تک پہنچایا کہ آج دنیاکے بڑی مائیکروسوفٹ کمپنیاں ان پر رشک کرتے ہیں
ترجمان کچھ ترجمہ درست نہ کر سکا تو مولانا آزاد نےاسکی غلطی درست کرکے کہا کہ یوں کہو۔
وائسرائے نے مولانا آزاد سے کہا:
جب آپکو انگریزی آتی ھےتو پھر ساتھ ترجمان کیوں بٹھایا
مولانا نے جواب دیا
آپ پانچ ہزار میل چل کر اپنی زبان نہیں چھوڑ سکے تو میں گھر بیٹھے کیسے اپنی زبان چھوڑ دوں۔
مولانا آزاد اور وائسرائے ہند
وائسرائے ہند مولانا ابو الکلام آزاد سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر آئےمولانا آزاد کے ساتھ ترجمان بیٹھا ھوا تھا۔وائسرائے جو بھی بات کرتا ترجمان اسکا ترجمہ کرکے مولانا آزاد کو بتا دیتا تھا اور مولانا آزاد کی ہربات کا ترجمہ انگریزی میں کردیتا
غبار خاطر کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا
پروفیسر رشید احمد صدیقی
مولانا ابوالکلام آزاد پہلے ایسے ادیب ہیں جنہوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی ہے
مشتاق احمد یوسفی