دو چار پل نکال کے فرصت میں میرے دوست
غم بانٹنے کو شہر میں اک شام ہم ملیں
عروج درانی
@fadiiisays.bsky.social
میری زمین میرا آخری حوالہ ہے! 🇵🇰
دو چار پل نکال کے فرصت میں میرے دوست
غم بانٹنے کو شہر میں اک شام ہم ملیں
عروج درانی
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
مجید امجد
مِلتا ہے کُچھ خُلوص و محبّت کا اجر بھی
اب اِس مُـــغالطے سے رِہا ہو گـیا ہُوں میں
عبدالحـــمید عدمؔ
جو میرے ذکر پہ اب قہقہے لگاتا ہے
بچھڑتے وقت کوئی حال دیکھتا اُس کا
جمالؔ احسانی
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
شاہد ذکی
جس وقت ترے ہاتھ نے چھوڑا تھا مرا ہاتھ
وہ وقت مری آنکھ کے حلقوں میں پڑا ہے
زہرا شاہ
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
منیر نیازی
کس ضرورت کو دباؤں کسے پورا کر لوں
اپنی تنخواہ کئی بار گنی ہے میں نے
نصرت صدیقی
سنا ہے جب سے شفاعت کو آپ ﷺ آئیں گے
کہ جیسے بوجھ سا اک ہٹ گیا ہے سینے سے
پروین شاکر
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا
احمد فراز
میرے نصیبِ شوق میں لکھا تھا یہ مقام
ہر سو تیرے خیال کی دنیا ہے، تُو نہیں
مجید امجد
جو دل کے طاق میں تُو نے چراغ رکھے تھے
نہ پوچھ میں نے انہیں کس طرح ستارہ کیا
جمال احسانی
اپنی قسمت میں سبھی کچھ تھا مگر پھول نہ تھے
تُم اگر پھول نہ ہوتے تو ہمارے ہوتے !
اشفاق ناصر !
صد حیف تجھے دھوپ میں جلتے ہوئے دیکھا
افسوس کہ ہم سایۂ دیوار نہیں تھے
جمال احسانی
ایسے چھوڑیں گے تیرا شہر کہ ہم اس کی طرف
گردشِ وقت کے مارے بھی نہیں آئیں گے
ظہیر مشتاق رانا
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ اسلام امجدؔ
کب تلک لوٹ کے آؤ گے بچھڑنے والو
خالی رستے پہ کھڑا شخص برا لگتا ہے!
طارق عزیز سلطانی
تم بناؤ کسی تصویر میں کوئی رستہ
میں بناتا ہوں کہیں دور سے آتا ہوا میں
عمار اقبال
میں ایسا خاک بسر تھا کہ تھک کے جب بیٹھا
غبارِ راہ مری جھرّیوں میں بیٹھ گیا
سجاد بلوچ
پائیں گے اب کہاں مجھے یارانِ ناشناس
میں خود سے ہوں فرار میرا کچھ پتہ نہیں
اظہار وارثی
آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بیکار جائے گا
خورشید رضوی
حیرت ہے وہ ہی بوجھ سمجھنے لگا مجھے
وہ جس کا ایک عمر تلک آسرا تھا میں
حمزہ حسام
کیسے اٹھائے پھرتے ہیں جسموں کا بوجھ سب
ہم کو تو دل کا بوجھ بھی ہلکا نہیں لگا
فیصل محمود
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
آنس معین
یار بھی راہ کی دیوارسمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا میرے یار سمجھتے ہیں مجھے
شاہد ذکی
تمہارے پاس نہیں آنکھ دیکھنے والی
ہمارے پاس بڑی دلنشین صورت ہے
ناہیداختربلوچ
وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا!
03.11.2025 06:27 — 👍 1 🔁 0 💬 0 📌 0سواری صرف ایک اتری ہے اور میں
بھری گاڑی میں تنہا رہ گیا ہوں
مہر فام
مجھے پتا ہے رعایت نہیں کرے گا وقت
میں لاکھ کہتا پھروں گا کہ ماں کا لعل ہوں میں
نعمان شفیق
میں روز خواب میں اونچی جگہ سے گرتا ہوں
تو مجھ کو چھوڑنے والا ہے تو بتا دے یار
علی ارتضی