کسی بےبس کی آہوں کا , سمندر لے کے ڈوبے گا
خسارہ تم ہی پاؤ گے سُنو , میزان کہتا ہے
@shaka007.bsky.social
CataHolic, Books, Poetry, Music, Travelling, Soccer, Nature Lover
کسی بےبس کی آہوں کا , سمندر لے کے ڈوبے گا
خسارہ تم ہی پاؤ گے سُنو , میزان کہتا ہے
تیری آنکھوں سے یہ قیدی , گرے گا اشک کی مانند
یہاں سے بھاگ جانے کو , مجھے زندان کہتا ہے
محبت کھیل ایسا ھے , جہاں سب ہار کے جیتے
یہ بازی ہم ہی ہاریں گے , یہ ہر میدان کہتا ہے
یوں توڑو رابطے مجھ سے , یا چاھے راستے بدلو
بھُلا پھر بھی نہ پاؤ گے , میرا امکان کہتا ہے
طلاطم سانس کا , سینے میں ھے ٹوٹا ہوا کل سے
وہ مجھکو بھول بیٹھا ھے , میرا وجدان کہتا ہے
ملاقاتیں نہیں ممکن , تعلق بھی محال اب تو
تیرے لہجے کی چاہت کا , چھپا فقدان کہتا ہے
> *بـیٹــھے تھــے اپنــی مــوج مــیں اچـــــانکـــــ رو پـــڑـے..!!
> *یـــوں آ کــر تیــــرے خیـــالـــ نــــے اچــــھا نہـــــی کیـــا..!!
جو تھکن تھی کسی سے محبت کی!!!
وہ تھکن بھی اتار دی میں نے
اک خواہش تھی اُس سے ملنے کی
پھر وہ "خواہش" بھی مار دی میں نے
پوچھتے کیا ہو 'زندگی' کے بارے میں؟؟؟
مجھ پر گزری۔۔۔۔گزار دی میں نے۔۔۔!
یہ جو خواہشوں کا پرندہ ہے،
اسے موسموں سے غرض نہیں،
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں،
اسے آب دے یا سراب دے۔
کبھی یوں بھی ہو تیرے روبرو،
میں نظر ملا کر کہہ سکوں،
میری خواہشوں کا شمار کر،
میری حسرتوں کا حساب دے…!!!
میں خود کو تجھ سے مٹاؤں گا احتیاط کے ساتھ
تو بس نشان لگا دے کہاں کہاں ہوں میں
میں اتنی سختی سے کھو گیا ہوں
کہ اب سبھی کا میں ہو گیا ہوں
کوئی بھی مجھ سا نہی ملا جب
خود اپنے قدموں میں سو گیا ہوں
میں اب اذیت کا پیر ہوں جی
میں عاشقوں کا فقیر ہوں جی
کبھی میں حیدر کبھی علی ہوں
جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی...!
میں اب مٹاؤں گا سارے فاسد
میں اب نکالوں گا سارا غصہ
میں اب اجاڑوں گا تیرا حصہ
میں اب اٹھاؤں گا سارے پردے
میں اب بتاؤں گا تیرا قصہ
مزید سُن لو۔۔۔
او نفرتوں کے یزید سن لو
میں اب نظم کا سہارا لوں گا
میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گا
اگر تو جلتا ہے شاعری سے
تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گا
اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو
میں پھر بھی جاناں کھڑا رہوں گا
بتاؤں تم کو ؟
میں کیا کروں گا ؟
میں اب زخم کو زبان دوں گا
میں اب اذیت کو شان دوں گا
میں اب سنبھالوں گا ہجر والے
میں اب سبھی کو مکان دوں گا
میں اب بلاؤں گا سارے قاصد
میں اب جلاؤں گا سارے حاسد
میں اب تفرقے کو چیر کر پھر
تو جاناں سن لو
اذیتوں کا ترانہ سن لو
کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم
بھلے ہی دل سے نکال دو تم
کمال دو یا زوال دو تم
یا میری گندی مثال دو تم
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔۔۔۔۔!
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔
پڑا ہوا ہوں ، پڑا رہوں گا
گڑا ہوا ہوں ، گڑا رہوں گا
زمانے بھر کو اداس کر کے
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
جانے دیں گے ؟
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
یہ تو ہونا تھا میاں ایسا کہاں ممکن ہے
تو دل آزاری کرے اور مکافات نہ ہو
تہذیبِ جنُوں کار پہ تنقید کا حق ہے
گِرتی ہُوئی دِیوار پہ تنقید کا حق ہے
ہاں ! مَیں نے لہُو اَپنا گُلستاں کو دیا ہے
مُجھ کو گُل و گُلزار پہ تنقید کا حق ہے
مَیں یاد دِلاتا ہُوں ، شِکایت نہِیں کرتا
بُھولے ہُوئے اِقرار پہ ، تنقید کا حق ہے
مجروح جو کر دے دِل اِنساں کی حقیقت
اس شوخیِ گفتار پہ تنقید کا حق ہے
جتنا بھی محتاط ہو آخر جانا جاتا ہے
آدمی اپنے لفظوں سے پہچانا جاتا ہے
تم ان لوگوں میں شامل ہو
جو سا تھ رہیں تو دنیا کی
ہر چیز
اضافی لگتی ہے
جو بات
گوارا مشکل ہو
و ہ قابلِ معافی لگتی ہے
دم بھر کی قربت بھی جنکی
صدیوں کی
تلافی لگتی ہے
تم ان لوگوں میں شامل ہو
ہاتھ چُھڑایا کسی نے تو یوں مرے دن رات اُجڑے
وطن سے دور , پردیس میں جیسے سادات اُجڑے
عشق نے تو فقط ایک ہی فرد کو پنکھے سے لٹکایا
مگر اُس گھر کے مکیں تھے سات اور سات اُجڑے
آئینہ سامنے رکھتے ہیں حقیقت والا
خواب اوقات سے مہنگے نہیں دیکھا کرتے
تیر واپس نہیں آتے ہیں کمانوں میں کبھی
پھاڑ کر خط کے تراشے نہیں دیکھا کرتے
میں نے زیور تھام لیا تھا باقی گٹھڑی رکھ دی تھی
گھر کی چاہ تھی گھر والوں نے شرط بھی تگڑی رکھ دی تھی
یار میری آنکھوں میں دیکھو میں تو صرف تمہاری ہوں
یار میرے پیروں میں میرے باپ نے پگڑی رکھ دی تھی
تیرے وعدے کی حقیقت تو عیاں ہے لیکن
آہ، وہ لوگ جو مجبورِ یقیں ہوتے ہیں
تمہارے گیسووں کی چھاوں مل جائے
تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے
اٹھا لو اپنا سایہ تو،
میری اوقات ہی کیا ہے؟
میرے بارے نہ کچھ سوچو،
تم اپنی بات بتلاو
کہو !تو چلتے رہتے ہیں
کہو !!
تو لوٹ جاتے ہیں !!
میرے بارے نہ کچھ سوچو
مجھے طے کرنا آتا ہے
رسن کا، دار کا رستہ
یہ آسیبوں بھرا رستہ،
یہ اندھی غار کا رستہ
تمہارا نرم و نازک ہاتھ ہو
گر میرے ہاتھوں میں
تو میں سمجھوں کہ جیسے
دو جہاں ہیں میری مٹھی میں
تمہارا قرب ہو تو،
مشکلیں کافور ہو جائیں
یہ اندھے اور کالے راستے
پر نور ہو جائیں
ابھی نزدیک ہیں گھر
اور منزل دور ہے اپنی
مبادا نار ہو جائے
یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
یہ رستہ پیار کا رستہ
رسن کا دار کا رستہ
بہت دشوار ہے جاناں۔ ۔ ۔ ۔
کہ اس رستے کا ہر ذرہ
بھی اک کہسار ہے جاناں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے،
شجر کی اور جاتے ہیں
ابھی کاجل کی ڈوری۔
سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے،
زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشک کستوری
غزالوں تک نہیں آئی
ابھی روداد بے عنواں
ہمارے درمیاں ہے
دنیا والوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں!
ابھی تو بات لمحوں تک ہے،
سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی،
نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری،
خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں تک ہے،
بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں